30-Sep-2022 ہفتہ وار مقابلہ دوست
Bemisaal dosti
کبھی کبھی میں اپنے آپ سے نفرت کرنے لگتا ہوں بار بار یقین کرنے پر کچھ لوگ جو مجھ سے بچتے ہیں وہ مجھے حساس دلاتے ہیں کی نارمل نہیں ہوں مجھ میں کمی ہے میں جہاں بھی جاتا ہوں تو لوگ وہاں سے اٹھ کر چکے جاتے ہیں۔۔مججے سمجھ نہیں آتا میں کیا کروں"وہ بے بسی سے اپنے دوست کو اپنی آپ بیتی سنا رہا تھا اسکے ہر الفاظ سے اس کی اذیت ہی اذیت جھلک رہی تھی۔
یار تو ایسا کیوں کہتا ہے تو کب سے دوسروں کی فکر کرنے لگا جہاں تک میں جانتا ہوں تو دوسروں کو کبھی کسی کھاتے میں نہیں لاتا تو پھر آج کیوں"اس کا دوست فکرمندی سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے بولا۔
ہاں میں پہلے ایسا نہیں تھا کیونکہ پہلے میں تھیک تھا اور اب نہیں ہوں"وہ خلا میں دیکھتے اداسی سے بولا۔
کیا ہوا ہے تجھے بلکل تندرست ہو بات کر رہے ہو دیکھ رہے ہوں ویل سیٹیڈ ہو کیا کمی ہے تجھ میں"وہ اسے اپنی طرف گھوماتا جھنجھوڑتے ہوئے بولا۔
خالد تم کمی کی بات کر رہے کیا ڈاکٹر نے بتایا نہیں ہے کہ میں اب چل نہیں سکتا کبھی"وہ اسے نا سمجھیں سے دیکھتا اپنے پاؤں کی طرف اشارہ کیا جس پر پلسٹر چڑھا ہوا تھا جو کہ کچھ عرصے پہلے کار ایکسیڈنٹ میں ناکارہ ہو گیا۔
ڈاکٹر بکواس جرتا ہے جہاں ہم دوسرے ممالک چلتے ہیں وہاں تمہارا علاج ہوگا تو تم چلنے لگو گے اور تم اتنی آسانی سے اپنے خواب بھول گئے"وہ اسے حوصلا دیتے ہوئے بولا ڈر تو اسے بھی تھا دوست کی فکر تو اسے بھی تھیٹوٹ تو وہ بھی گیا تھا لیکن وہ زاہر نہیں کر سکتا تھا اسے اپنے دوست کو بھی تو سنبھالنا تھا جو اسکا بچپن کا ساتھی ماں باپ سب تھا۔وہ دونوں ہی تو ایک دوسرے کے لیے سب تھے تو کیوں اسے تکلیف نہ ہوتی جب کہ اس کا یار تکلیف میں تھا۔
تو بھی شیور نہیں ہے یار تجھے بھی پتا ہے کہ میری ٹانگوں کے تھیک ہونے کے چانس بہت کم ہے"وہ اپنے دوست کو خالی نظروں سے دیکھتے بولا تو وہ چپ کر گیا۔اود وہاں سے اٹھ کر اپنے روم میں چلا گیا۔یہ دو کمروں کا فلیٹ ان دونوں کی ملکیت تھی جس میں وہ دونوں زندگی سے بھرپور جی رہے تھے کہ ایک حادثے نے انہیں توڑ دیا۔
خالد کے جانے کے بعد وہ دوبارا خلا میں دیکھنے لگا کیونکہ اسے نیند تو آنی ہی نہیں تھی کیونکہ وہ تو اسکی نیند کے کر لی گئی جو اسکی زندگی تھی جس نے اسکے ساتھ جینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ایک حادثے نے سببدل دیا اس کی زندگی ویران کر دی۔
خالد وہاں سے نکلتا آہ ے دوم میں جانے کے بجائے باہر کی طرف بڑھ گیا اور گاڑی میں بیٹھتے سڑکوں پر گھومنے لگا دراصل وہ اپنے اندر کی بے بسی کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہا تھا جو کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی وہ اپنے دوست کو ایسے ویران نہیں دیکھ سکتا تھا۔
اہہہہہ"اچانک اسنے گاڑی کو بریک لگائی اور بےبسی سے سٹیرنگ پر مکے برسانے لگا۔اود پھر رونے لگا کون کہتا ہے کہ مرد روتا نہیں ہے مرد بھی روتا ہے کسی بہت خاص اپنے کے لیے جو اس کی زندگی ہوتے ہیں اور وہاں فلیٹ میں موجود اس کا دوست بھی اس کی زندگی اسکا کل اصاصہ تھا۔جو ویران ہو گیا ہے۔
نہیں میں اسے ایسے نہیں دیکھ سکتا میں ایک دفعہ رانیہ سے بات کرتا ہوں کہ اسے اسکی ضرورت ہے اسے ایسے اکیلےنہ چھوڑے۔۔۔۔ہاں۔ہاں یہ سہی ہے"وہ سٹیرنگ سے سر اٹھاتا بڑبڑانے لگا اور پھر گاڑی اسٹارٹ کر دیا اور کچھ ہی دیر میں وہ ایک گھر کے سامنے موجود تھا۔
اس کے بیل بجائے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ دروازہکھول کر ایک موڈرن سی لڑکی نمودار ہوئی۔
ارے خالد تم آؤ اندر آؤ "وہ خوش اخلاقی سے مسکراتے ہوئے بولی اور ایک سایڈ ہو گئی تو وہ اندر آ گیا۔
کہو کیسے آنا ہوا"وہ اسکے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
رانیہ تم۔۔جہاں کی زندگی میں واپس آ جاؤ اسے تمہاری میری ہم دونوں کی ضرورت ہے"وہ صوفے پر آگے کو ہوتے بے چینی سے بولا۔
دیکھے خالد میں ایک ایسے شخص کے ساتھ کیسے لائف سیٹل کرونگی جو کبھی چل نہیں سکتا"وہ نرم لہجے میں اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔
وہ چل سکتا ہے رانیہ بس ہمیں دوسرے ممالک جانا ہوگا"وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولا۔
اب کوئی فاںٔدہ نہیں ہے میری شادی فکس ہو گئی ہے اور اگلے منتھ میری شادی ہے"وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔
رانیہ ایسا نہ کرو۔تم شادی سے انکار کر دو جہاں مر جائے گا اگر تم اسکے ساتھ رہوگی تو وہ علاج کے لیے بھی مان جائے گا بات کو سمجھو"وہ بےبسی سے بال میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
سوری یار ڈونٹ پوسیبل اور میرا جو میرا منگیتر ہے وہ کروڑوں کا مالک ہے اور میں بےوقوف نہیں ہوں کہ اسے چھوڑ کر ایک لنگڑے کے پیچھے جاؤں"وہ تھوڑا تکخی سے بولی۔
زبان سنبھثکے رانیہ میرا دوست لنگڑا نہیں ہے سمجھیں"وہ غصے سے چلاتے ہوئے بولا۔
آواز نیچے خالد یہ میرا گھر ہے تمہارا چھوٹا سا فلیٹ نہیں"وہ بھی کھڑی ہوتے ہوئے بولی۔
بہت ہو گیا رانیہ میں ہی پاگل تھا جو تم جیسی لالچی کے پاس اپنے دوست کے لیے بھیک مانگنے آ گیا تم جیسی لالچی عورت میری دوست کی نا ہوی تو اس امیرزادے کی کیا ہوگی جو تمہارا منگیتر ہے"وہ غصے سے بولتا تن فن کرتے وہاں سے نکل گیا۔
انہہ" پیچھے رانیہ نے غصے سے ہنکار بھرا۔
جہاں۔۔۔جہاں۔۔۔کہاں ہو بھائی"خالد اسکے روم میں داخل ہوتے ہوئے بولا لیکن اسے وہ کہی نہیں دیکھا۔
یہاں ہوں ہر ٹیرس پر"وہ ٹیرس پر سے بولا۔
یہاں کیا کر رہا تو"وہ اس کے پاس آتے ہوئے بولا۔
بس زندگی کو دیکھ رہا تھا کہ ایک پل میں جتنی حسین تھی اور اب"وہ گہرا سانس بہرتے ہوئے بولا اور بات ادھوری چھوڑ دی۔
اب بھی زندگی حسین ہو سکتی ہے میرے یار بس تم ایک دفعہ ہاں تو بولو"وہ اسکے گھٹنو کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔
کیسے کیسے کہاں سے آئیں گے"وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا تو وہ ایک منٹ کے لیے چپ کر گیا۔
تو پیسے کی فکر نہ کر بس ہاں کہہ دے میں کہی سے بھی پیسے لے آؤ گا"وہ اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے آنکھوں سے لگاتے بولا۔
کہاں سے لائے گا تو اتنے پیسے۔۔تو مجھے دارلامان چھوڑ دے خوامخواہ میں تجھ پر بھی بوجھ بن گیا ہوں"وہ اس سے اپنا ہاتھ چھڑاتے نظریں چرا کر بولا۔
بکواس نہ کر جہاں ورنہ ایک لگاؤ گا"وہ اسے گھورتے ہوئے بولا اور اسے سینے میں بھینچ لیا اور اس پل جہاں نے خود کو خوش قسمت سمجھا تھا کہ اس کے پاس اتنا سچا دوست ہے جو ہر حال میں اس کی مددکرنا چاہتا ہے۔
مان جاؤ نہ یار پیسے کہ تو نہ فکر کر میرے کوئی جاننے والے ہیں ان سے میں کہوں گا تو وہ میری مدد کر دیں گے بس تو مان جا میرے یار"وہ آنکھوں میں امید لیے اسے دیکھتے ہوئے بولا تو وہ ہار مانتا سر اثبات میں ہلا گیا اور خالد نے اسے پھر سے زور سے بھینچ لیا خود میں۔
ابے یار میں تیری محبوبہ نہیں ہوں جو ایسے کہتا ہوا ہے"وہ اسے دیکھتے شرارت سے بولا تو وہ جلدی سے اس سے دور ہوتا ایک دھموکا جڑ دیا جس پر وہ کرہا اٹھا۔
سوری یار زور سے لگ گئی کیا"خالد جلدی سے فکرمندی سے بولا۔
ہاہاہاہا نہیں یار میں میں مزاق کر رہا تھا"وہ ہنستے ہوئے بولا تو وہ بھی ہنس دیا۔
اچھا اب تو ارامثکر میں کام سے جا رہا ہوں اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو کال کر دینا اوکے"وہ اٹھتے ہوئے بولا اور اس کی ویل چیئر پکڑتے اندر روم میں لے آیا اور اس اپنی مدد سے بیڈ پر لیٹا دیا۔
اوکے بوس اور جلدی آ جانا"وہ لیٹتے ہوئے بولا۔
ہاں یارا جلدی آؤں گا بس تو خیال رکھی"وہ بولا اور کا گیا تو وہ بھی موبائل اٹھاتا گیم کھیلنے لگا۔
ڈاکٹر اپنے جو کہا تھا وہ کونسی فیمیلی ہے"وہ اس وقت ہاسپیٹل میں ایک ڈاکٹر کے سامنے موجود تھا۔
روکیں میں انہیں کال کرکے بلا لیتا ہوں آپ ان سے خود بات کر لیں"ڈاکٹر پیشاوارانہ لہجے میں بولا اور کسی کو کال کرنے لگا۔
ہیلو مسٹر خان"وہ موبائل کان کو لگاتے بولے۔
جی آپ کو اپنی مسسز کے لیے گردے چاہیے تھے نہ اس کا انتظام ہو گیا ہے"وہ خالد کو دیکھتے ہوئے بولے۔
ہاں مسٹر خان میں مزاق نہیں کر رہا اور جس نے دینے کی بات کہی ہے آپ ان کی بس ایک ہیلپ کر دیں"ڈاکٹر صاحب بولے۔
جی آپ خود آ کر بات کر لیں۔۔۔ اللّٰہ حافظ"وہ الوعیدہ کلمات کہتے موبائل رکھ دیا اور خالد کی طرف متوجہ ہوئے جو بے چینی سے انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔
بس مسٹر خان پانچ منٹ میں آ رہیں ہیں تو آپ بات کر لیں"وہ خالد کی رپورٹ فاںٔل دیکھتے ہوئے بولے جو بلکل نارمل تھی۔
جی شکریہ ڈاکٹر آپ نے میری ایک بڑی مشکل آسان کر دی ہے"وہ فرط جذبات سے بولا۔
ابھی ڈاکٹر کچھ کہتے کہ دروازہ نوک ہوا۔
یس"ڈاکٹر نے اجازت دی تو مسٹر خان اندر داخل ہوئے جنہیں دیکھتے ڈاکٹر کھرے ہو گئے تو خالد بھی ان کے ساتھ ہی کھڑا ہو گیا۔
کون ہے وہ ڈاکٹر"وہ ڈاکٹر جو دیکھتے بولے تو ڈاکٹر نے خالد کی طرف اشارہ کر دیا۔
ہیلو میں رومان خان"وہ مصافے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولے۔
خالد لغاری"خالد نے بھی اپنے تعارف کرتے ان کا ہاتھ تھام لیا۔
تمہارا بہت شکریہ ینگ مین بولو میں کیا مدد کر سکتا ہوں تمہاری"وہ اسے گلے لگاتے ہوئے خوشی سے بولے۔
بس سر مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے اگر آپ دیں دے تو"وہ ہچکچاتے ہوئے بولا۔
کتنے پیسے"انہوں نے استفسار کیا۔
تین چار لاکھ"وہ ہونز ہچکچاتے ہوئے بولا۔
اتنے پیسے کا کیا کروگے ینگ مین"وہ حیرت سے بولے۔
مجھے اپنے دوست کا علاج کروانا ہے جس کے لیے ہمیں دوسرے ممالک جانا ہوگا"وہ اپنے دوست کے لیے فکرمندی سے بولا۔
دوست کے لیے کیا ہوا ہے تمہارے دوست کو"انہوں نے استفسار کیا۔
دراصل کچھ عرصے پہلے اسکا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اسکے پیر فریکچر ہو گئے ہیں اور ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ وہ کبھی چل نہیں سکتا لیکن ایک چانس ہے اگر کسی دوسرے جا کر کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کروائیں تو وہ چل سکے"اس نے انہیں تفصیل سے بتایا۔
اوو یہ تو بہت برا ہوا اللّٰہ پاک تمہارے دوست کو شفا دے اور وہ زرور چل پائے گا اور تمہیں جتنے پیسے کی بھی ضرورت ہو مانگ لینا اور کبھی کہی میری ضرورت محسوس ہوئی تو ضرور بتانا"وہ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولے۔
شکریہ سر آپکا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا"وہ تشکر سے بولا۔
اس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں ہے ینگ مین تم میری انت الحیاۃ کو گردا دے رہے ہو تو میں نے تو بس چھوٹی سی مدد کی ہے"وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
اچھا ڈاکٹر تو آپریشن کب ہوگا"اس دفعہ خان صاحب نے ڈاکٹر سے پوچھا۔
جب آپ لوگ کہیں"ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا تو مسٹر خان نے خالد کو دیکھا۔
میں پہلے اپنے دوست کو بتا دوں کہ میں کچھ دن باہر رہونگا ورنہ میری غیر موجودگی میں وہ فکر مند ہو جائے گا"خالد دونوں کی نظریں خود پر پاتا بولا۔
تم دونوں کی دوستی تو بےمثال ہے ینگ مین اللہ تن دونوں کو ایسے ہی سلامت رکھے"انہوں نے دل دعا دی۔
آمین "خالد نے تہہ دل سے آمین کہا۔
اچھا اب میں چلتا ہوں کل شام تک آؤ نگار"خالد اٹھتے ہوئے بولا تو ڈاکٹر بھی اٹھ گئے اور اس سے مصافہ کیا پھر مسٹر خان سے مصافہ کرتا وہ ان کے آفس سے نکل گیا اور پھر ہاسپیٹل کی عمارت سے نکلتا اپنے گاڑی کی طرف بڑھ گیا اب اسے جہاں جو سمجھانا تھا کسی بھی طرح۔
جہاں چلو کہی باہر چلتے ہیں تم بھی بور ہو گئے ہوگے"خالد اس کا دل بہلانے کے لیے بولا جو موبائل میں کچھ دیکھ رہا تھا۔
کہاں باہر"اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
پارک چلتے ہیں تم بھی اچھا فیل کروگے"وہ سوچتے ہوئے بولا۔
میرا من نہیں ہے یار" جہان نے بےزاری سے کہا۔
کم آن یار کچھ یو بیٹر فیلینگ"وہ اسے مناتے ہوئے بولا۔
اوکے لیکن بس کچھ دیر کے لیے"وہ مانتے ہوئے بولا۔
تو وہ جلدی سے اٹھتا اسکا ڈریس نکالنے لگا پھر اسے دیتا خود بھی اپنے روم میں جا کر ریڈی ہونے لگا اور پانچ منٹ بعد ہی وہ اسکے روم میں واپس موجود تھا۔
چلو"وہ کہتا اسکی ویل چیئر گھسیٹتا باہر بڑھ گیا۔
کچھ ہی دیر میں وہ دونوں پاس کے ہی پارک میں موجود تھے۔
یار جہاں مجھے کچھ دن کے لیے دہلی جانا پڑیگا"خالد نے الفاظ کو ترتیب دیتے ہوئےکہا۔
کس لیے"جہاں نے اس کی طرف دیکھا جو کنفیوز ہو رہا تھا۔
وہ افس کے کام کے لیے بس دو دن کے لیے"وہ جلدی سے بولا۔
تھیک ہے"جہاں اس کی طرف سے نظر پھیرتے ہوئے بولا تو اسنے گہدا سانس کھینچا۔
میں نے حارث کو کہہ دیا ہے وہ دو دن تمہارے ساتھ رہے گا"خالد نے اسے دوبارا متوجہ کیا۔
اچھا"ایک لفظی جواب۔
اور پھر ہم دبئی چلیں گے تمہارے علاج کے لیے"وہ سے دیکھتے ہوئے بولا۔
اور پیسوں کا انتظام"جہاں نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے پوچھا۔
میں نے بوس سے بات کی تھی وہ اسی لیے مجھے دہلی بھیج رہے"وہ اس سے نظریں چراتے ہوئے بولا۔
سچ کہہ رہا ہے نہ تو"وہ اسے جانچتی نظروں سے دیکھتا بولا ہاں نہ جھوٹ کیوں بولوں گا اور چل گھر چلتے ہیں "وہ اٹھتے ہوئے بولا اور گھر کی طرف قدم بڑھا کیے تو جہاں بھی اپنی ویل چیئر گھسیٹتا اسکے پیچھے ہو لیا۔
ہیلو ڈاکٹر"وہ اپنے روم میں بیٹھا ڈاکٹر کو کال کی۔
یس ایم ریڈی"وہ ٹہلتے ہوئے بولا۔
یس ایم شیور بس آپ بتائیں کب آؤ"وہ انہیں یقین دلاتے ہوئے بولا۔
ہاں ڈاکٹر مجھے ہتا ہے"وہ بےزاری سے بولا وہ بار بار کے ایک سوال سے عاجز آ گیا۔
جی اوکے اللّٰہ حافظ"وہ کال رکھتا گھوما تو جہاں اسے ہی دیکھ رہا تھا جسے دیکھتے ایک پل کے لیے وہ ٹہر سا گیا لیکن پھر جلدی ہی خود کو کمپوز کرتا اسکی طرف بڑھا۔
ارے جہاں تم یہاں مجھے بلا لیتے"وہ اسکی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
تم ڈاکٹر سے کیا بات کر رہے تھے"وہ اسے خوجتی نظروں سے دیکھتا بولا۔
وہ میں۔۔۔تمہارے علاج کے بارے بات کر تہا تھا"وہ اسکے آگے سے ہٹتے بولا
جھوٹ نہ بولو خالد "وہ غصے سے چللا کر بولا۔
میں سچ میں جھوٹ نہیں بول رہا"وہ اس سے نظریں چراتے بولا۔
اچھا تو یہ کس کے گردے کی بات ہو رہی تھی"وہ کاٹ دار لہجے میں بولا۔تو اس نے ایک گہری سانس خارج کی اور اسکی طرف گھوما۔
وہ میں اپنا ایک گردا ٹرانسپلانٹ کر رہا"وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔تو وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
ک۔۔کس لیے"وہ حیرت سے بولا۔
وہ تمہارے لیے ایک بزنس مین ہیں انہیں اپنی وایف کے لیے گردے چاہیے تھے تو میں دے رہا اور اس کے بدلے وہ میں پیسے دینگے تمہارے علاج کے لیے"وہ اس کا ہاتھ پکڑتا ساری بات بتا دی۔
مجھے ایسا علاج نہیں کروانا جس میں تمہیں اپنا گردا بیچنا پڑے"وہ اس کا ہاتھ ہٹاتا ہوا بولا۔
ایسا نہ کہو میں نے سب فائنل کر دیا اور اب تم کچھ نہیں بولوگے"وہ اٹل لہجے میں بولا تو جہاں اسے دیکھنے لگا۔
تم اتنا یہ سب میرے لیے کیوں کر رہے خالد"وہ نم لہجے میں بولا۔
کیونکہ تم ہی میرے سب کچھ ہو اور میں تمہیں اداس نہیں دیکھ سکتا میں چاہتا ہوں کہ تم کھل کر زندگی جیو"وہ اسکا ہاتھ دربارہ پکڑتے ہوئے بولا۔
میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں اتار سکوں گا"وہ اسکا ہاتھ آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولا۔
میں چاہتا بھی نہیں کہ تم یہ احسان اتارو بس زندگی کو کھل کر جیو پہلے جیسے"وہ اس کے آنسوں صاف کرتے ہوئے بولا جو چپکے سے نکل گئے تھے۔
اچھا اب یہ بچو کی طرح رونے مت بیٹھ جانا میں ہاسپیٹل جا رہا دو دن میں آ جاؤں گا پھر ہماری ٹیکٹ ہے"وہ اس کے پاس سے اٹھتے ہوئے بولا۔
میں کوئی رو نہیں رہا"وہ اسکی بات کا برا مانتے ہوئے بولا۔
اچھا تھیک ہے میں نے حارث کو کہہ دیا ہے وہ آ جائے گا تھوڑی دیر میں اور تو خیال رکھی جلدی آؤں گا "وہ اس کے گلے لگتے ہوئے بولا۔اور اپنا بیگ لیتا باہر نکل گیا
آپ آپریشن کے لیے ریڈی ہیں"ڈاکٹر نے آخری دفعہ پوچھا پھر اسکے بعد آپریشن تھا۔
یس ڈاکٹر"وہ اکتا کر بولا۔اس کے کہنے پر ڈاکٹر نے اسے ایک انجیکشن لگایا اور پھر اسے لیے آپریشن تھیٹر کی طرف بڑھ گئے۔
ادھر آپریشن ہو رہا تھا اور ادھر وہ اس کے لیے دعا کر رہا تھا پھر دو گھنٹے بعد آپریشن مکمل ہو گیا تھا اور اسے روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔
پھر دو دن بعد اسے کچھ میڈیسن دے کر ڈیسچارج کر دیا گیا تھا اور آج وہ اپنے روم میں آرام کر رہا تھا کیونکہ کل ان کی فلائٹ تھی دبئی کی۔
می۔ اندر آ جاؤ"وہ بستر پر نیم دراز تھا کہ دروازہ نوک ہوا ۔
ارے جہاں تو جب سے اجازت لینے لگا"وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
ہاں اب ضرورت ہو گئی ہے جب سے تو نے احسان کیا ہے"وہ اندر آتے ہوئے بولا۔
بکواس نہ کری ورنہ ابھی میں نے تیرا منھ سجا دینا مار کر"وہ اسے گھورتے ہوئے بولا۔
یار تیرا بہت بہت شکریہ کہ تو میری مدد کر رہا میرے لیے تکلیف سہی تونے"وہ خالد کو دیکھتے ہوئے بولا۔
یار تو سینٹی نہیں ہو رہا آج کل زیادہ جا کر اپنی پیکنگ کرو کل صبح ہمیں نکلنا ہے"وہ اسکی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔
میں نے کر لیا ہے پیکنگ پس ایک دفعہ رانیہ سے ملنا چاہتا ہوں"وہ نظریں نیچے کیے بولا۔
دیکھو جہاں رانیہ کی دو دن میں مہندی ہے اس لیے اسے بھول جا تیرے لیے اچھا ہوگا اور جہاں تک ملنے کی بات میں تجھے نہیں لے کر جا رہا بعزتی کروانے کے لیے"وہ تکخی سے بولا اسے اپنی اس دن کی ملاقات یاد آ گئی۔
یاربس ایک دفعہ شاید وہ مجھے دیکھ کر ماں جائے میرے پاس واپس آ جائے"وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے منت کرتے بولا۔
یار یہ تو نہ کر وہ لالچی عورت ہے اسے کوئی فرق نہیں پڑھتا اس کا منگیتر کروڑوں جا مالک ہے وہ اسے کیوں چھوڑے گی"وہ اسے آینہ دیکھاتے ہوئے بولا تو وہ چپ کر گیا اور روم سے نکلتا چلا گیا پیچھے خالدنگ بےبسی سے سر پر ہاتھ پھیرا۔
آج انکی فلائٹ تھی اور انہیں سی آف کرنے حارث آیا ہوا تھا دس منٹ میں انکی فلائٹ تھی تو وہ دونوں حارث سے ملتے اندر کی طرف بڑھ گئے۔
مسٹر خان نے ان دونوں کے لیے ایک پرائیویٹ جیٹ جا بندوبس کیا تھا جس سے وہ آسانی سے سفر کر سکیں اور آٹھ گھنٹے کے سفر کے بعد وہ دونوں دبئی کے ایرپوٹ پر کھڑے ٹیکسی کا نتظار کر رہے تھے ان کے رہنا کا بھی بندوبس ہو گیا تھا سارا انتظام مسٹر خان سنبھال رہے تھے۔پھر کچھ ہی دیر میں انہیں لینے مسٹر خان کے رشتےدار آئے تھے جنکی پیروی میں وہ دونوں ایک فلیٹ پر پہنچے جو مسٹر خان کا ہی تھا۔
اب آپ لوگ آرام کر لیں میں شام میں آؤ گا کھانے کو لیکر"مسٹر فاروق اچھے میزبان کی طرح بولے۔
جی شکریہ"دونوں ان کا شکریہ کرتے اپنے اپنے روم میں آرام کے فرش سے چلے گئے۔۔
شام میں جہاں اپنے روم سے نکلا ہی تھا کی بیل ہوئی اس نے جا کر دروازہ کھولا تو مسٹر فاروق ہی تھے
اسلام وعلیکم ینگ مین کیسا لگا ہمارا ملک"وہ خوش اخلاقی سے بولے۔
واعلیکم السلام جی الحمدللہ اور بہت اچھا لگا آپ بیٹھیے میں خالد کو بھی بلا لیتا ہوں پھر ساتھ میں ڈنر کرینگے"وہ لاؤنچ میں افا ہوا بولا۔
جی شیور"وہ بولتے صوفے پر بیٹھ گئے تو جہاں اندر چلا گیا خالد کو بلانے۔
چالدنیچے فاروق صاحب آیں ہیں تم بھی آ جاؤ"جہاں نے باہر سے ہی آواز دے کر کہا۔
اچھا تم چلو میں فریش ہو کر آتا ہوں"خالد کی اندر سے آواز آئی تو وہ فاروق صاحب کی طرف بڑھ گیا۔
ابھی وہ لوگ بات ہی کر رہے تھے کہ پھر خوش گوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔پھر فاروق صاحب چلے گئے تو وہ دونوں بھی سونے کے لیے آپنے اپنے روم کی طرف بڑھ گئے کیونکہ صبح ان کی اپاینمنٹ تھی ڈاکٹر سے اس لیے جلدی اٹھنا تھا۔
صبح وہ جلدی اٹھ گیا تھا اور ریڈی ہو کر ایک ہاتھ میں گھڑی لگاتے ہوئے وہ جہاں کے روم کی طرف بڑھا۔
جہاں آٹھ جا یار ہمیں ہاسپیٹل جانا ہے"وہ جہاں کا کمفٹر ہٹاتے ہوئے بولا جو اٹھنے کا نام ہی نہیں کے رہا تھا۔
یار ٹھوری دیر روک جا نہ"وہ کمفٹر دوبارا ڈالتے ہوئے بولا تو خالد کی بس ہوئی اور اس نے پاس پڑا جب اٹھا کر سب اس پر خالی کر دیا۔
اہہہہہ"وہ ہڑبڑا کر اٹھتا چللا اٹھا اور خالد کا زور دار قہقہہ لگا۔
کمینےمی۔ تجھے چھوڑونگا نہیں۔۔۔۔"وہ چللا تے اٹھنےلگا کہ کرہہا اٹھا۔
یار تو تھیک تو ہے"خالدی جلدی سے فکرمندی سے آگے بڑھا۔
تمہیں کہی سے تھیک لگ رہا ہوں "وہ اداسی سے بولا۔
یار کیوں اداس ہوتا دیکھنا بہت جلد تو اپنے پیروں پر کھڑا رہے گا"وہ اسے حوصلا دیتے ہوئے بولا۔
انشاء اللہ "وہ بسیہی کہہ سکا۔
اچھا اب چل جلدی سے تو فریش پو جا پھر ہم ہاسپیٹل چلتے ہیں"وہ اسے سہارا دیتے ویل چیئر پر بیٹھاتے ہوئے بولا۔
ہہمم تو چل میں دس منٹ میں آتا ہوں"جہاں بولا اور اپنی ویل چیئر گھسیٹتا واشروم میں بند ہو گیا اور تھیک دس منٹ بعد وہ خالد کے سامنے تھا اور فاروق صاحب بھی آ گئے تھے جن کی پیروی میں انہیں جانا تھا۔
اب چلیں"جہاں ان دونوں کے دیکھتے بولا تو وہ لوگ باہر کی طرف بڑھ گئے۔
فاروق صاحب ڈرائیو کر رہے تھے اور خالد ان کے ساتھ آگے جب کہ جہاں پیچھے بیٹھا تھا۔
شکریہ فاروق صاحب کہ آپ ٹائم پر آ گئے"خالد سامنے روڈ پر دیکھتے بولا۔
اس میں شکریہ کی کیا بات ہے ینگ مین مجھے مسٹر خان نے سختی سے تاکید کی ہے کہ آپ دونوں کو کوئی پریشانی نہ ہو"وہ ڈرائیو کرتے بولےایسے یہ باتوں میں پورا راستہ کٹ گیا۔
یہ لیں آ گئی آپ کی منزل جب کام ہو جائے تو کال کر دینا میں آ جاؤں گا"وہ گاڑی روکتے سامنے اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
جی شکریہ میں کیپ سے چلا جاؤں گا آپ رہنے دیں"خالد گاڑی سے اترتے ہوئے بولا۔
ینگ مین میں جو بھی کہتا ہوں اسے کوئی ٹال نہیں سکتا تو آپ بھی نہیں ٹال سکتے اوکے"وہ تھوڑے سختی سے بولے تو وہ ناچار سر ہلا فیا جب کہ جہاں ان دونوں سے لاتعلقق عمارت کو دیکھ رہا تھا۔
چلو جہاں "وہ پیچھے کی طرف آتا اسے سہارا دیا۔پھر وہ لوگ اندر داخل ہو گئے۔اور اس وقت وہ دونوں ڈاکٹر کے سامنے بیٹھے بےچینی سے اسے ہی دیکھ رہے تھے جو جہاں کی ریپوٹ پڑھ رہا تھا۔
ہاں تو مسٹر جہاں آپ کا ایکسیڈنٹ کب ہوا تھا"ڈاکٹر ان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔
چھ مہینے پہلے"جہاں بولا۔
اچھا اور آپ کو اپنی ٹاںگے محسوس ہوتی ہیں " ڈاکٹر آگے کہتے بولا۔
ہاں "اس نے ایک لفظی جواب دیا۔
تھیک آپ کا دو آپریشن ہوگا تو انشاء اللہ آپ چل گ لگیں گے"ڈاکٹر نے پیشاوارانہ لہجے میں کہا۔
سچ ڈاکٹر"جہاں سے زیادہ خالد جوش سے بولا۔
یس مسٹر خالد بس انہیں کچھ ایکسرسائز کرنی پڑے گی"ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا۔
جی شکریہ ڈاکٹر تو آپریشن کب کروانہ ہے"خالد جوش سے بولا۔
جی جب آپ لوگ کہیں"ڈاکٹر نے ان دونوں کے دیکھ کر کہا۔
کل۔۔نہیں پرسو"ابھی خالدہ کچھ بولتا کہ جہاں جلدی سے بولا۔
جی تھیک بہتر"ڈاکٹر بولا۔تو خالد مصافے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
ابھی وہ دونوں کوریڈور میں ہی تھے کہ خالد جہاں کے آگے آ کر گھٹنے کے بل بیٹھ گیا
یہ کیا کر رہا"جہاں حیرت سے بولا۔
دیکھا میں نے کہا تھا نہ تعچل سکتا ہے اب بس یہ دونوں آپریشن ہو جائے پھر ہم میچ کھیلیں گے اور جیتے گے"خالد اسکا ہاتھ پکڑتا جوش سے بولا۔
ہاں انشاء اللہ شکریہ خالدیہ سب صرف تمہاری وجہ سے ہو رہا ہے"جہاں نم لہجے میں بولا۔
اب رونا نہیں ہہمم بس اب سے تم بھی زندگی کو انجوائے کروگے"خالد بولا تو وہ مسکرا کر سر اثبات میں ہلا دیا۔
اب گھر چلیں یہاں پر سب دیکھ رہیں"جہاں مسکرا کر بولا۔
تو کونسا تو میری جی ایف ہے"وہ کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔
لیکن تو بی ہیو تو ایسا ہی کر رہا "جہاں ہنستے ہوئے بولا۔
توبہت کمینہ ہے یار"خالدبھی ہنستے ہوئے بولا اور باہر کیطرف بڑھ گیا۔
آج جہاں کا آپریشن تھا اور خالد باہر پریر روم میں بیٹھا اللّٰہ کے حضور سجدہ زیر تھا اپنے دوست کے لیے دعا کر رہا تھا کہ آپریشن بس کسی طرح کامیاب ہو جائے اس کے دوست کو زندگی مل جائے۔وہ دعا کرتا باہر کی طرف بڑھ گیا ابھی وہ کوریڈور میں ہی تھا کہ ایک نرس اس کی طرف آی۔
جی خالد لغاری"نرسنگ سوالیہ پوچھا۔
یس"خالد نے جواب دیا۔
وہ آپریشن ہو گیا ہے اور ڈاکٹر آپ کو بلا رہے ہیں"نرس کہتی وہاں سے چلی گئی تو وہ بھی ڈاکٹر کے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔
جی ڈاکٹر آپ نے بلایا"وہ دستک دیتا بولا۔
یس مسٹر خالد آئیے"ڈاکٹر نے اسے اندر آنے کی اجازت دی۔
آپ کے دوست کا آپریشن کامیاب رہا اور اگلا آپریشن یہاں سے تھیک ایک کہنے بعد ہو گا تب تک آپ انہیں ایکسرسائز کروایں زیادہ سے زیادہ ایسے وہ جلدی ریکور ہوں گے"ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں بولا ۔
جی ڈاکٹر اور کوئی پریشانی"وہ فکرمندی سے بولا۔
جی نہیں وہ تھیک ہیں"ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا۔
اور ڈیسچارج کب ملے گا ڈاکٹر"خالد نے پوچھا۔
دو دن میں"ڈاکٹر جواب دیتا کھڑا ہو گیا۔
شکریہ"وہ ان سے مصافہ کرتا باہر بڑھ گیا اب اس کا رخ جہاں کے روم کی طرف تھا۔
صہدوم میں داخل ہوا تو وہ ابھی بھی سو رہا تھا تو وہی پرکرسج رکھتا بیٹھ گیا اور موبائل نکال لیا۔
ابھی اسکے بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی کہ اسے ہوش آنے لگا ۔
پانی"وہ نیم گندگی میں بولا تو خالد نے جلدی سے پانی گلاس میں بھر کر اسے پلایا۔
اب کیسا فیل کر رہا "خالد دوبارا بیٹھتے ہوئے بولا۔
الحمدللہ"جہاں نکاہت سے بولا۔
اچھا تو آرام کرمیں کچھ کھانے کو لاتا ہوں"وہ بولتا باہر کی طرف بڑھ گیا تو جہاں نے دوبارا آنکھیں بندکر لی۔
آج وہ ڈیسچارج ہو گیا تھا اور اس وقت اپنے روم میں آرام کر رہا تھا کہ خالد روم میں داخل ہوا۔
اوے آرام بعد میں کری پہلے چل ایکسرسائز کرتے ہیں "خالد دھار سے روم میں داخل ہوتے ہوئے بولا ۔
بعد میں کر لیں گے پہلے مجھے سونے دے"وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھتے بولا۔کبھی کبھی میں اپنے آپ سے نفرت کرنے لگتا ہوں بار بار یقین کرنے پر کچھ لوگ جو مجھ سے بچتے ہیں وہ مجھے حساس دلاتے ہیں کی نارمل نہیں ہوں مجھ میں کمی ہے میں جہاں بھی جاتا ہوں تو لوگ وہاں سے اٹھ کر چکے جاتے ہیں۔۔مججے سمجھ نہیں آتا میں کیا کروں"وہ بے بسی سے اپنے دوست کو اپنی آپ بیتی سنا رہا تھا اسکے ہر الفاظ سے اس کی اذیت ہی اذیت جھلک رہی تھی۔
یار تو ایسا کیوں کہتا ہے تو کب سے دوسروں کی فکر کرنے لگا جہاں تک میں جانتا ہوں تو دوسروں کو کبھی کسی کھاتے میں نہیں لاتا تو پھر آج کیوں"اس کا دوست فکرمندی سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے بولا۔
ہاں میں پہلے ایسا نہیں تھا کیونکہ پہلے میں تھیک تھا اور اب نہیں ہوں"وہ خلا میں دیکھتے اداسی سے بولا۔
کیا ہوا ہے تجھے بلکل تندرست ہو بات کر رہے ہو دیکھ رہے ہوں ویل سیٹیڈ ہو کیا کمی ہے تجھ میں"وہ اسے اپنی طرف گھوماتا جھنجھوڑتے ہوئے بولا۔
خالد تم کمی کی بات کر رہے کیا ڈاکٹر نے بتایا نہیں ہے کہ میں اب چل نہیں سکتا کبھی"وہ اسے نا سمجھیں سے دیکھتا اپنے پاؤں کی طرف اشارہ کیا جس پر پلسٹر چڑھا ہوا تھا جو کہ کچھ عرصے پہلے کار ایکسیڈنٹ میں ناکارہ ہو گیا۔
ڈاکٹر بکواس جرتا ہے جہاں ہم دوسرے ممالک چلتے ہیں وہاں تمہارا علاج ہوگا تو تم چلنے لگو گے اور تم اتنی آسانی سے اپنے خواب بھول گئے"وہ اسے حوصلا دیتے ہوئے بولا ڈر تو اسے بھی تھا دوست کی فکر تو اسے بھی تھیٹوٹ تو وہ بھی گیا تھا لیکن وہ زاہر نہیں کر سکتا تھا اسے اپنے دوست کو بھی تو سنبھالنا تھا جو اسکا بچپن کا ساتھی ماں باپ سب تھا۔وہ دونوں ہی تو ایک دوسرے کے لیے سب تھے تو کیوں اسے تکلیف نہ ہوتی جب کہ اس کا یار تکلیف میں تھا۔
تو بھی شیور نہیں ہے یار تجھے بھی پتا ہے کہ میری ٹانگوں کے تھیک ہونے کے چانس بہت کم ہے"وہ اپنے دوست کو خالی نظروں سے دیکھتے بولا تو وہ چپ کر گیا۔اود وہاں سے اٹھ کر اپنے روم میں چلا گیا۔یہ دو کمروں کا فلیٹ ان دونوں کی ملکیت تھی جس میں وہ دونوں زندگی سے بھرپور جی رہے تھے کہ ایک حادثے نے انہیں توڑ دیا۔
خالد کے جانے کے بعد وہ دوبارا خلا میں دیکھنے لگا کیونکہ اسے نیند تو آنی ہی نہیں تھی کیونکہ وہ تو اسکی نیند کے کر لی گئی جو اسکی زندگی تھی جس نے اسکے ساتھ جینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ایک حادثے نے سببدل دیا اس کی زندگی ویران کر دی۔
خالد وہاں سے نکلتا آہ ے دوم میں جانے کے بجائے باہر کی طرف بڑھ گیا اور گاڑی میں بیٹھتے سڑکوں پر گھومنے لگا دراصل وہ اپنے اندر کی بے بسی کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہا تھا جو کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی وہ اپنے دوست کو ایسے ویران نہیں دیکھ سکتا تھا۔
اہہہہہ"اچانک اسنے گاڑی کو بریک لگائی اور بےبسی سے سٹیرنگ پر مکے برسانے لگا۔اود پھر رونے لگا کون کہتا ہے کہ مرد روتا نہیں ہے مرد بھی روتا ہے کسی بہت خاص اپنے کے لیے جو اس کی زندگی ہوتے ہیں اور وہاں فلیٹ میں موجود اس کا دوست بھی اس کی زندگی اسکا کل اصاصہ تھا۔جو ویران ہو گیا ہے۔
نہیں میں اسے ایسے نہیں دیکھ سکتا میں ایک دفعہ رانیہ سے بات کرتا ہوں کہ اسے اسکی ضرورت ہے اسے ایسے اکیلےنہ چھوڑے۔۔۔۔ہاں۔ہاں یہ سہی ہے"وہ سٹیرنگ سے سر اٹھاتا بڑبڑانے لگا اور پھر گاڑی اسٹارٹ کر دیا اور کچھ ہی دیر میں وہ ایک گھر کے سامنے موجود تھا۔
اس کے بیل بجائے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ دروازہکھول کر ایک موڈرن سی لڑکی نمودار ہوئی۔
ارے خالد تم آؤ اندر آؤ "وہ خوش اخلاقی سے مسکراتے ہوئے بولی اور ایک سایڈ ہو گئی تو وہ اندر آ گیا۔
کہو کیسے آنا ہوا"وہ اسکے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
رانیہ تم۔۔جہاں کی زندگی میں واپس آ جاؤ اسے تمہاری میری ہم دونوں کی ضرورت ہے"وہ صوفے پر آگے کو ہوتے بے چینی سے بولا۔
دیکھے خالد میں ایک ایسے شخص کے ساتھ کیسے لائف سیٹل کرونگی جو کبھی چل نہیں سکتا"وہ نرم لہجے میں اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔
وہ چل سکتا ہے رانیہ بس ہمیں دوسرے ممالک جانا ہوگا"وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولا۔
اب کوئی فاںٔدہ نہیں ہے میری شادی فکس ہو گئی ہے اور اگلے منتھ میری شادی ہے"وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔
رانیہ ایسا نہ کرو۔تم شادی سے انکار کر دو جہاں مر جائے گا اگر تم اسکے ساتھ رہوگی تو وہ علاج کے لیے بھی مان جائے گا بات کو سمجھو"وہ بےبسی سے بال میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
سوری یار ڈونٹ پوسیبل اور میرا جو میرا منگیتر ہے وہ کروڑوں کا مالک ہے اور میں بےوقوف نہیں ہوں کہ اسے چھوڑ کر ایک لنگڑے کے پیچھے جاؤں"وہ تھوڑا تکخی سے بولی۔
زبان سنبھثکے رانیہ میرا دوست لنگڑا نہیں ہے سمجھیں"وہ غصے سے چلاتے ہوئے بولا۔
آواز نیچے خالد یہ میرا گھر ہے تمہارا چھوٹا سا فلیٹ نہیں"وہ بھی کھڑی ہوتے ہوئے بولی۔
بہت ہو گیا رانیہ میں ہی پاگل تھا جو تم جیسی لالچی کے پاس اپنے دوست کے لیے بھیک مانگنے آ گیا تم جیسی لالچی عورت میری دوست کی نا ہوی تو اس امیرزادے کی کیا ہوگی جو تمہارا منگیتر ہے"وہ غصے سے بولتا تن فن کرتے وہاں سے نکل گیا۔
انہہ" پیچھے رانیہ نے غصے سے ہنکار بھرا۔
جہاں۔۔۔جہاں۔۔۔کہاں ہو بھائی"خالد اسکے روم میں داخل ہوتے ہوئے بولا لیکن اسے وہ کہی نہیں دیکھا۔
یہاں ہوں ہر ٹیرس پر"وہ ٹیرس پر سے بولا۔
یہاں کیا کر رہا تو"وہ اس کے پاس آتے ہوئے بولا۔
بس زندگی کو دیکھ رہا تھا کہ ایک پل میں جتنی حسین تھی اور اب"وہ گہرا سانس بہرتے ہوئے بولا اور بات ادھوری چھوڑ دی۔
اب بھی زندگی حسین ہو سکتی ہے میرے یار بس تم ایک دفعہ ہاں تو بولو"وہ اسکے گھٹنو کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔
کیسے کیسے کہاں سے آئیں گے"وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا تو وہ ایک منٹ کے لیے چپ کر گیا۔
تو پیسے کی فکر نہ کر بس ہاں کہہ دے میں کہی سے بھی پیسے لے آؤ گا"وہ اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے آنکھوں سے لگاتے بولا۔
کہاں سے لائے گا تو اتنے پیسے۔۔تو مجھے دارلامان چھوڑ دے خوامخواہ میں تجھ پر بھی بوجھ بن گیا ہوں"وہ اس سے اپنا ہاتھ چھڑاتے نظریں چرا کر بولا۔
بکواس نہ کر جہاں ورنہ ایک لگاؤ گا"وہ اسے گھورتے ہوئے بولا اور اسے سینے میں بھینچ لیا اور اس پل جہاں نے خود کو خوش قسمت سمجھا تھا کہ اس کے پاس اتنا سچا دوست ہے جو ہر حال میں اس کی مددکرنا چاہتا ہے۔
مان جاؤ نہ یار پیسے کہ تو نہ فکر کر میرے کوئی جاننے والے ہیں ان سے میں کہوں گا تو وہ میری مدد کر دیں گے بس تو مان جا میرے یار"وہ آنکھوں میں امید لیے اسے دیکھتے ہوئے بولا تو وہ ہار مانتا سر اثبات میں ہلا گیا اور خالد نے اسے پھر سے زور سے بھینچ لیا خود میں۔
ابے یار میں تیری محبوبہ نہیں ہوں جو ایسے کہتا ہوا ہے"وہ اسے دیکھتے شرارت سے بولا تو وہ جلدی سے اس سے دور ہوتا ایک دھموکا جڑ دیا جس پر وہ کرہا اٹھا۔
سوری یار زور سے لگ گئی کیا"خالد جلدی سے فکرمندی سے بولا۔
ہاہاہاہا نہیں یار میں میں مزاق کر رہا تھا"وہ ہنستے ہوئے بولا تو وہ بھی ہنس دیا۔
اچھا اب تو ارامثکر میں کام سے جا رہا ہوں اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو کال کر دینا اوکے"وہ اٹھتے ہوئے بولا اور اس کی ویل چیئر پکڑتے اندر روم میں لے آیا اور اس اپنی مدد سے بیڈ پر لیٹا دیا۔
اوکے بوس اور جلدی آ جانا"وہ لیٹتے ہوئے بولا۔
ہاں یارا جلدی آؤں گا بس تو خیال رکھی"وہ بولا اور کا گیا تو وہ بھی موبائل اٹھاتا گیم کھیلنے لگا۔
ڈاکٹر اپنے جو کہا تھا وہ کونسی فیمیلی ہے"وہ اس وقت ہاسپیٹل میں ایک ڈاکٹر کے سامنے موجود تھا۔
روکیں میں انہیں کال کرکے بلا لیتا ہوں آپ ان سے خود بات کر لیں"ڈاکٹر پیشاوارانہ لہجے میں بولا اور کسی کو کال کرنے لگا۔
ہیلو مسٹر خان"وہ موبائل کان کو لگاتے بولے۔
جی آپ کو اپنی مسسز کے لیے گردے چاہیے تھے نہ اس کا انتظام ہو گیا ہے"وہ خالد کو دیکھتے ہوئے بولے۔
ہاں مسٹر خان میں مزاق نہیں کر رہا اور جس نے دینے کی بات کہی ہے آپ ان کی بس ایک ہیلپ کر دیں"ڈاکٹر صاحب بولے۔
جی آپ خود آ کر بات کر لیں۔۔۔ اللّٰہ حافظ"وہ الوعیدہ کلمات کہتے موبائل رکھ دیا اور خالد کی طرف متوجہ ہوئے جو بے چینی سے انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔
بس مسٹر خان پانچ منٹ میں آ رہیں ہیں تو آپ بات کر لیں"وہ خالد کی رپورٹ فاںٔل دیکھتے ہوئے بولے جو بلکل نارمل تھی۔
جی شکریہ ڈاکٹر آپ نے میری ایک بڑی مشکل آسان کر دی ہے"وہ فرط جذبات سے بولا۔
ابھی ڈاکٹر کچھ کہتے کہ دروازہ نوک ہوا۔
یس"ڈاکٹر نے اجازت دی تو مسٹر خان اندر داخل ہوئے جنہیں دیکھتے ڈاکٹر کھرے ہو گئے تو خالد بھی ان کے ساتھ ہی کھڑا ہو گیا۔
کون ہے وہ ڈاکٹر"وہ ڈاکٹر جو دیکھتے بولے تو ڈاکٹر نے خالد کی طرف اشارہ کر دیا۔
ہیلو میں رومان خان"وہ مصافے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولے۔
خالد لغاری"خالد نے بھی اپنے تعارف کرتے ان کا ہاتھ تھام لیا۔
تمہارا بہت شکریہ ینگ مین بولو میں کیا مدد کر سکتا ہوں تمہاری"وہ اسے گلے لگاتے ہوئے خوشی سے بولے۔
بس سر مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے اگر آپ دیں دے تو"وہ ہچکچاتے ہوئے بولا۔
کتنے پیسے"انہوں نے استفسار کیا۔
تین چار لاکھ"وہ ہونز ہچکچاتے ہوئے بولا۔
اتنے پیسے کا کیا کروگے ینگ مین"وہ حیرت سے بولے۔
مجھے اپنے دوست کا علاج کروانا ہے جس کے لیے ہمیں دوسرے ممالک جانا ہوگا"وہ اپنے دوست کے لیے فکرمندی سے بولا۔
دوست کے لیے کیا ہوا ہے تمہارے دوست کو"انہوں نے استفسار کیا۔
دراصل کچھ عرصے پہلے اسکا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اسکے پیر فریکچر ہو گئے ہیں اور ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ وہ کبھی چل نہیں سکتا لیکن ایک چانس ہے اگر کسی دوسرے جا کر کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کروائیں تو وہ چل سکے"اس نے انہیں تفصیل سے بتایا۔
اوو یہ تو بہت برا ہوا اللّٰہ پاک تمہارے دوست کو شفا دے اور وہ زرور چل پائے گا اور تمہیں جتنے پیسے کی بھی ضرورت ہو مانگ لینا اور کبھی کہی میری ضرورت محسوس ہوئی تو ضرور بتانا"وہ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولے۔
شکریہ سر آپکا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا"وہ تشکر سے بولا۔
اس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں ہے ینگ مین تم میری انت الحیاۃ کو گردا دے رہے ہو تو میں نے تو بس چھوٹی سی مدد کی ہے"وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
اچھا ڈاکٹر تو آپریشن کب ہوگا"اس دفعہ خان صاحب نے ڈاکٹر سے پوچھا۔
جب آپ لوگ کہیں"ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا تو مسٹر خان نے خالد کو دیکھا۔
میں پہلے اپنے دوست کو بتا دوں کہ میں کچھ دن باہر رہونگا ورنہ میری غیر موجودگی میں وہ فکر مند ہو جائے گا"خالد دونوں کی نظریں خود پر پاتا بولا۔
تم دونوں کی دوستی تو بےمثال ہے ینگ مین اللہ تن دونوں کو ایسے ہی سلامت رکھے"انہوں نے دل دعا دی۔
آمین "خالد نے تہہ دل سے آمین کہا۔
اچھا اب میں چلتا ہوں کل شام تک آؤ نگار"خالد اٹھتے ہوئے بولا تو ڈاکٹر بھی اٹھ گئے اور اس سے مصافہ کیا پھر مسٹر خان سے مصافہ کرتا وہ ان کے آفس سے نکل گیا اور پھر ہاسپیٹل کی عمارت سے نکلتا اپنے گاڑی کی طرف بڑھ گیا اب اسے جہاں جو سمجھانا تھا کسی بھی طرح۔
جہاں چلو کہی باہر چلتے ہیں تم بھی بور ہو گئے ہوگے"خالد اس کا دل بہلانے کے لیے بولا جو موبائل میں کچھ دیکھ رہا تھا۔
کہاں باہر"اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
پارک چلتے ہیں تم بھی اچھا فیل کروگے"وہ سوچتے ہوئے بولا۔
میرا من نہیں ہے یار" جہان نے بےزاری سے کہا۔
کم آن یار کچھ یو بیٹر فیلینگ"وہ اسے مناتے ہوئے بولا۔
اوکے لیکن بس کچھ دیر کے لیے"وہ مانتے ہوئے بولا۔
تو وہ جلدی سے اٹھتا اسکا ڈریس نکالنے لگا پھر اسے دیتا خود بھی اپنے روم میں جا کر ریڈی ہونے لگا اور پانچ منٹ بعد ہی وہ اسکے روم میں واپس موجود تھا۔
چلو"وہ کہتا اسکی ویل چیئر گھسیٹتا باہر بڑھ گیا۔
کچھ ہی دیر میں وہ دونوں پاس کے ہی پارک میں موجود تھے۔
یار جہاں مجھے کچھ دن کے لیے دہلی جانا پڑیگا"خالد نے الفاظ کو ترتیب دیتے ہوئےکہا۔
کس لیے"جہاں نے اس کی طرف دیکھا جو کنفیوز ہو رہا تھا۔
وہ افس کے کام کے لیے بس دو دن کے لیے"وہ جلدی سے بولا۔
تھیک ہے"جہاں اس کی طرف سے نظر پھیرتے ہوئے بولا تو اسنے گہدا سانس کھینچا۔
میں نے حارث کو کہہ دیا ہے وہ دو دن تمہارے ساتھ رہے گا"خالد نے اسے دوبارا متوجہ کیا۔
اچھا"ایک لفظی جواب۔
اور پھر ہم دبئی چلیں گے تمہارے علاج کے لیے"وہ سے دیکھتے ہوئے بولا۔
اور پیسوں کا انتظام"جہاں نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے پوچھا۔
میں نے بوس سے بات کی تھی وہ اسی لیے مجھے دہلی بھیج رہے"وہ اس سے نظریں چراتے ہوئے بولا۔
سچ کہہ رہا ہے نہ تو"وہ اسے جانچتی نظروں سے دیکھتا بولا ہاں نہ جھوٹ کیوں بولوں گا اور چل گھر چلتے ہیں "وہ اٹھتے ہوئے بولا اور گھر کی طرف قدم بڑھا کیے تو جہاں بھی اپنی ویل چیئر گھسیٹتا اسکے پیچھے ہو لیا۔
ہیلو ڈاکٹر"وہ اپنے روم میں بیٹھا ڈاکٹر کو کال کی۔
یس ایم ریڈی"وہ ٹہلتے ہوئے بولا۔
یس ایم شیور بس آپ بتائیں کب آؤ"وہ انہیں یقین دلاتے ہوئے بولا۔
ہاں ڈاکٹر مجھے ہتا ہے"وہ بےزاری سے بولا وہ بار بار کے ایک سوال سے عاجز آ گیا۔
جی اوکے اللّٰہ حافظ"وہ کال رکھتا گھوما تو جہاں اسے ہی دیکھ رہا تھا جسے دیکھتے ایک پل کے لیے وہ ٹہر سا گیا لیکن پھر جلدی ہی خود کو کمپوز کرتا اسکی طرف بڑھا۔
ارے جہاں تم یہاں مجھے بلا لیتے"وہ اسکی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
تم ڈاکٹر سے کیا بات کر رہے تھے"وہ اسے خوجتی نظروں سے دیکھتا بولا۔
وہ میں۔۔۔تمہارے علاج کے بارے بات کر تہا تھا"وہ اسکے آگے سے ہٹتے بولا
جھوٹ نہ بولو خالد "وہ غصے سے چللا کر بولا۔
میں سچ میں جھوٹ نہیں بول رہا"وہ اس سے نظریں چراتے بولا۔
اچھا تو یہ کس کے گردے کی بات ہو رہی تھی"وہ کاٹ دار لہجے میں بولا۔تو اس نے ایک گہری سانس خارج کی اور اسکی طرف گھوما۔
وہ میں اپنا ایک گردا ٹرانسپلانٹ کر رہا"وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔تو وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
ک۔۔کس لیے"وہ حیرت سے بولا۔
وہ تمہارے لیے ایک بزنس مین ہیں انہیں اپنی وایف کے لیے گردے چاہیے تھے تو میں دے رہا اور اس کے بدلے وہ میں پیسے دینگے تمہارے علاج کے لیے"وہ اس کا ہاتھ پکڑتا ساری بات بتا دی۔
مجھے ایسا علاج نہیں کروانا جس میں تمہیں اپنا گردا بیچنا پڑے"وہ اس کا ہاتھ ہٹاتا ہوا بولا۔
ایسا نہ کہو میں نے سب فائنل کر دیا اور اب تم کچھ نہیں بولوگے"وہ اٹل لہجے میں بولا تو جہاں اسے دیکھنے لگا۔
تم اتنا یہ سب میرے لیے کیوں کر رہے خالد"وہ نم لہجے میں بولا۔
کیونکہ تم ہی میرے سب کچھ ہو اور میں تمہیں اداس نہیں دیکھ سکتا میں چاہتا ہوں کہ تم کھل کر زندگی جیو"وہ اسکا ہاتھ دربارہ پکڑتے ہوئے بولا۔
میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں اتار سکوں گا"وہ اسکا ہاتھ آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولا۔
میں چاہتا بھی نہیں کہ تم یہ احسان اتارو بس زندگی کو کھل کر جیو پہلے جیسے"وہ اس کے آنسوں صاف کرتے ہوئے بولا جو چپکے سے نکل گئے تھے۔
اچھا اب یہ بچو کی طرح رونے مت بیٹھ جانا میں ہاسپیٹل جا رہا دو دن میں آ جاؤں گا پھر ہماری ٹیکٹ ہے"وہ اس کے پاس سے اٹھتے ہوئے بولا۔
میں کوئی رو نہیں رہا"وہ اسکی بات کا برا مانتے ہوئے بولا۔
اچھا تھیک ہے میں نے حارث کو کہہ دیا ہے وہ آ جائے گا تھوڑی دیر میں اور تو خیال رکھی جلدی آؤں گا "وہ اس کے گلے لگتے ہوئے بولا۔اور اپنا بیگ لیتا باہر نکل گیا
آپ آپریشن کے لیے ریڈی ہیں"ڈاکٹر نے آخری دفعہ پوچھا پھر اسکے بعد آپریشن تھا۔
یس ڈاکٹر"وہ اکتا کر بولا۔اس کے کہنے پر ڈاکٹر نے اسے ایک انجیکشن لگایا اور پھر اسے لیے آپریشن تھیٹر کی طرف بڑھ گئے۔
ادھر آپریشن ہو رہا تھا اور ادھر وہ اس کے لیے دعا کر رہا تھا پھر دو گھنٹے بعد آپریشن مکمل ہو گیا تھا اور اسے روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔
پھر دو دن بعد اسے کچھ میڈیسن دے کر ڈیسچارج کر دیا گیا تھا اور آج وہ اپنے روم میں آرام کر رہا تھا کیونکہ کل ان کی فلائٹ تھی دبئی کی۔
می۔ اندر آ جاؤ"وہ بستر پر نیم دراز تھا کہ دروازہ نوک ہوا ۔
ارے جہاں تو جب سے اجازت لینے لگا"وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
ہاں اب ضرورت ہو گئی ہے جب سے تو نے احسان کیا ہے"وہ اندر آتے ہوئے بولا۔
بکواس نہ کری ورنہ ابھی میں نے تیرا منھ سجا دینا مار کر"وہ اسے گھورتے ہوئے بولا۔
یار تیرا بہت بہت شکریہ کہ تو میری مدد کر رہا میرے لیے تکلیف سہی تونے"وہ خالد کو دیکھتے ہوئے بولا۔
یار تو سینٹی نہیں ہو رہا آج کل زیادہ جا کر اپنی پیکنگ کرو کل صبح ہمیں نکلنا ہے"وہ اسکی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔
میں نے کر لیا ہے پیکنگ پس ایک دفعہ رانیہ سے ملنا چاہتا ہوں"وہ نظریں نیچے کیے بولا۔
دیکھو جہاں رانیہ کی دو دن میں مہندی ہے اس لیے اسے بھول جا تیرے لیے اچھا ہوگا اور جہاں تک ملنے کی بات میں تجھے نہیں لے کر جا رہا بعزتی کروانے کے لیے"وہ تکخی سے بولا اسے اپنی اس دن کی ملاقات یاد آ گئی۔
یاربس ایک دفعہ شاید وہ مجھے دیکھ کر ماں جائے میرے پاس واپس آ جائے"وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے منت کرتے بولا۔
یار یہ تو نہ کر وہ لالچی عورت ہے اسے کوئی فرق نہیں پڑھتا اس کا منگیتر کروڑوں جا مالک ہے وہ اسے کیوں چھوڑے گی"وہ اسے آینہ دیکھاتے ہوئے بولا تو وہ چپ کر گیا اور روم سے نکلتا چلا گیا پیچھے خالدنگ بےبسی سے سر پر ہاتھ پھیرا۔
آج انکی فلائٹ تھی اور انہیں سی آف کرنے حارث آیا ہوا تھا دس منٹ میں انکی فلائٹ تھی تو وہ دونوں حارث سے ملتے اندر کی طرف بڑھ گئے۔
مسٹر خان نے ان دونوں کے لیے ایک پرائیویٹ جیٹ جا بندوبس کیا تھا جس سے وہ آسانی سے سفر کر سکیں اور آٹھ گھنٹے کے سفر کے بعد وہ دونوں دبئی کے ایرپوٹ پر کھڑے ٹیکسی کا نتظار کر رہے تھے ان کے رہنا کا بھی بندوبس ہو گیا تھا سارا انتظام مسٹر خان سنبھال رہے تھے۔پھر کچھ ہی دیر میں انہیں لینے مسٹر خان کے رشتےدار آئے تھے جنکی پیروی میں وہ دونوں ایک فلیٹ پر پہنچے جو مسٹر خان کا ہی تھا۔
اب آپ لوگ آرام کر لیں میں شام میں آؤ گا کھانے کو لیکر"مسٹر فاروق اچھے میزبان کی طرح بولے۔
جی شکریہ"دونوں ان کا شکریہ کرتے اپنے اپنے روم میں آرام کے فرش سے چلے گئے۔۔
شام میں جہاں اپنے روم سے نکلا ہی تھا کی بیل ہوئی اس نے جا کر دروازہ کھولا تو مسٹر فاروق ہی تھے
اسلام وعلیکم ینگ مین کیسا لگا ہمارا ملک"وہ خوش اخلاقی سے بولے۔
واعلیکم السلام جی الحمدللہ اور بہت اچھا لگا آپ بیٹھیے میں خالد کو بھی بلا لیتا ہوں پھر ساتھ میں ڈنر کرینگے"وہ لاؤنچ میں افا ہوا بولا۔
جی شیور"وہ بولتے صوفے پر بیٹھ گئے تو جہاں اندر چلا گیا خالد کو بلانے۔
چالدنیچے فاروق صاحب آیں ہیں تم بھی آ جاؤ"جہاں نے باہر سے ہی آواز دے کر کہا۔
اچھا تم چلو میں فریش ہو کر آتا ہوں"خالد کی اندر سے آواز آئی تو وہ فاروق صاحب کی طرف بڑھ گیا۔
ابھی وہ لوگ بات ہی کر رہے تھے کہ پھر خوش گوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔پھر فاروق صاحب چلے گئے تو وہ دونوں بھی سونے کے لیے آپنے اپنے روم کی طرف بڑھ گئے کیونکہ صبح ان کی اپاینمنٹ تھی ڈاکٹر سے اس لیے جلدی اٹھنا تھا۔
صبح وہ جلدی اٹھ گیا تھا اور ریڈی ہو کر ایک ہاتھ میں گھڑی لگاتے ہوئے وہ جہاں کے روم کی طرف بڑھا۔
جہاں آٹھ جا یار ہمیں ہاسپیٹل جانا ہے"وہ جہاں کا کمفٹر ہٹاتے ہوئے بولا جو اٹھنے کا نام ہی نہیں کے رہا تھا۔
یار ٹھوری دیر روک جا نہ"وہ کمفٹر دوبارا ڈالتے ہوئے بولا تو خالد کی بس ہوئی اور اس نے پاس پڑا جب اٹھا کر سب اس پر خالی کر دیا۔
اہہہہہ"وہ ہڑبڑا کر اٹھتا چللا اٹھا اور خالد کا زور دار قہقہہ لگا۔
کمینےمی۔ تجھے چھوڑونگا نہیں۔۔۔۔"وہ چللا تے اٹھنےلگا کہ کرہہا اٹھا۔
یار تو تھیک تو ہے"خالدی جلدی سے فکرمندی سے آگے بڑھا۔
تمہیں کہی سے تھیک لگ رہا ہوں "وہ اداسی سے بولا۔
یار کیوں اداس ہوتا دیکھنا بہت جلد تو اپنے پیروں پر کھڑا رہے گا"وہ اسے حوصلا دیتے ہوئے بولا۔
انشاء اللہ "وہ بسیہی کہہ سکا۔
اچھا اب چل جلدی سے تو فریش پو جا پھر ہم ہاسپیٹل چلتے ہیں"وہ اسے سہارا دیتے ویل چیئر پر بیٹھاتے ہوئے بولا۔
ہہمم تو چل میں دس منٹ میں آتا ہوں"جہاں بولا اور اپنی ویل چیئر گھسیٹتا واشروم میں بند ہو گیا اور تھیک دس منٹ بعد وہ خالد کے سامنے تھا اور فاروق صاحب بھی آ گئے تھے جن کی پیروی میں انہیں جانا تھا۔
اب چلیں"جہاں ان دونوں کے دیکھتے بولا تو وہ لوگ باہر کی طرف بڑھ گئے۔
فاروق صاحب ڈرائیو کر رہے تھے اور خالد ان کے ساتھ آگے جب کہ جہاں پیچھے بیٹھا تھا۔
شکریہ فاروق صاحب کہ آپ ٹائم پر آ گئے"خالد سامنے روڈ پر دیکھتے بولا۔
اس میں شکریہ کی کیا بات ہے ینگ مین مجھے مسٹر خان نے سختی سے تاکید کی ہے کہ آپ دونوں کو کوئی پریشانی نہ ہو"وہ ڈرائیو کرتے بولےایسے یہ باتوں میں پورا راستہ کٹ گیا۔
یہ لیں آ گئی آپ کی منزل جب کام ہو جائے تو کال کر دینا میں آ جاؤں گا"وہ گاڑی روکتے سامنے اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
جی شکریہ میں کیپ سے چلا جاؤں گا آپ رہنے دیں"خالد گاڑی سے اترتے ہوئے بولا۔
ینگ مین میں جو بھی کہتا ہوں اسے کوئی ٹال نہیں سکتا تو آپ بھی نہیں ٹال سکتے اوکے"وہ تھوڑے سختی سے بولے تو وہ ناچار سر ہلا فیا جب کہ جہاں ان دونوں سے لاتعلقق عمارت کو دیکھ رہا تھا۔
چلو جہاں "وہ پیچھے کی طرف آتا اسے سہارا دیا۔پھر وہ لوگ اندر داخل ہو گئے۔اور اس وقت وہ دونوں ڈاکٹر کے سامنے بیٹھے بےچینی سے اسے ہی دیکھ رہے تھے جو جہاں کی ریپوٹ پڑھ رہا تھا۔
ہاں تو مسٹر جہاں آپ کا ایکسیڈنٹ کب ہوا تھا"ڈاکٹر ان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔
چھ مہینے پہلے"جہاں بولا۔
اچھا اور آپ کو اپنی ٹاںگے محسوس ہوتی ہیں " ڈاکٹر آگے کہتے بولا۔
ہاں "اس نے ایک لفظی جواب دیا۔
تھیک آپ کا دو آپریشن ہوگا تو انشاء اللہ آپ چل گ لگیں گے"ڈاکٹر نے پیشاوارانہ لہجے میں کہا۔
سچ ڈاکٹر"جہاں سے زیادہ خالد جوش سے بولا۔
یس مسٹر خالد بس انہیں کچھ ایکسرسائز کرنی پڑے گی"ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا۔
جی شکریہ ڈاکٹر تو آپریشن کب کروانہ ہے"خالد جوش سے بولا۔
جی جب آپ لوگ کہیں"ڈاکٹر نے ان دونوں کے دیکھ کر کہا۔
کل۔۔نہیں پرسو"ابھی خالدہ کچھ بولتا کہ جہاں جلدی سے بولا۔
جی تھیک بہتر"ڈاکٹر بولا۔تو خالد مصافے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
ابھی وہ دونوں کوریڈور میں ہی تھے کہ خالد جہاں کے آگے آ کر گھٹنے کے بل بیٹھ گیا
یہ کیا کر رہا"جہاں حیرت سے بولا۔
دیکھا میں نے کہا تھا نہ تعچل سکتا ہے اب بس یہ دونوں آپریشن ہو جائے پھر ہم میچ کھیلیں گے اور جیتے گے"خالد اسکا ہاتھ پکڑتا جوش سے بولا۔
ہاں انشاء اللہ شکریہ خالدیہ سب صرف تمہاری وجہ سے ہو رہا ہے"جہاں نم لہجے میں بولا۔
اب رونا نہیں ہہمم بس اب سے تم بھی زندگی کو انجوائے کروگے"خالد بولا تو وہ مسکرا کر سر اثبات میں ہلا دیا۔
اب گھر چلیں یہاں پر سب دیکھ رہیں"جہاں مسکرا کر بولا۔
تو کونسا تو میری جی ایف ہے"وہ کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔
لیکن تو بی ہیو تو ایسا ہی کر رہا "جہاں ہنستے ہوئے بولا۔
توبہت کمینہ ہے یار"خالدبھی ہنستے ہوئے بولا اور باہر کیطرف بڑھ گیا۔
آج جہاں کا آپریشن تھا اور خالد باہر پریر روم میں بیٹھا اللّٰہ کے حضور سجدہ زیر تھا اپنے دوست کے لیے دعا کر رہا تھا کہ آپریشن بس کسی طرح کامیاب ہو جائے اس کے دوست کو زندگی مل جائے۔وہ دعا کرتا باہر کی طرف بڑھ گیا ابھی وہ کوریڈور میں ہی تھا کہ ایک نرس اس کی طرف آی۔
جی خالد لغاری"نرسنگ سوالیہ پوچھا۔
یس"خالد نے جواب دیا۔
وہ آپریشن ہو گیا ہے اور ڈاکٹر آپ کو بلا رہے ہیں"نرس کہتی وہاں سے چلی گئی تو وہ بھی ڈاکٹر کے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔
جی ڈاکٹر آپ نے بلایا"وہ دستک دیتا بولا۔
یس مسٹر خالد آئیے"ڈاکٹر نے اسے اندر آنے کی اجازت دی۔
آپ کے دوست کا آپریشن کامیاب رہا اور اگلا آپریشن یہاں سے تھیک ایک کہنے بعد ہو گا تب تک آپ انہیں ایکسرسائز کروایں زیادہ سے زیادہ ایسے وہ جلدی ریکور ہوں گے"ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں بولا ۔
جی ڈاکٹر اور کوئی پریشانی"وہ فکرمندی سے بولا۔
جی نہیں وہ تھیک ہیں"ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا۔
اور ڈیسچارج کب ملے گا ڈاکٹر"خالد نے پوچھا۔
دو دن میں"ڈاکٹر جواب دیتا کھڑا ہو گیا۔
شکریہ"وہ ان سے مصافہ کرتا باہر بڑھ گیا اب اس کا رخ جہاں کے روم کی طرف تھا۔
صہدوم میں داخل ہوا تو وہ ابھی بھی سو رہا تھا تو وہی پرکرسج رکھتا بیٹھ گیا اور موبائل نکال لیا۔
ابھی اسکے بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی کہ اسے ہوش آنے لگا ۔
پانی"وہ نیم گندگی میں بولا تو خالد نے جلدی سے پانی گلاس میں بھر کر اسے پلایا۔
اب کیسا فیل کر رہا "خالد دوبارا بیٹھتے ہوئے بولا۔
الحمدللہ"جہاں نکاہت سے بولا۔
اچھا تو آرام کرمیں کچھ کھانے کو لاتا ہوں"وہ بولتا باہر کی طرف بڑھ گیا تو جہاں نے دوبارا آنکھیں بندکر لی۔
آج وہ ڈیسچارج ہو گیا تھا اور اس وقت اپنے روم میں آرام کر رہا تھا کہ خالد روم میں داخل ہوا۔
اوے آرام بعد میں کری پہلے چل ایکسرسائز کرتے ہیں "خالد دھار سے روم میں داخل ہوتے ہوئے بولا ۔
بعد میں کر لیں گے پہلے مجھے سونے دے"وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھتے بولا۔
نہیں بلکل نہیں پہلے ایکسرسائز پھر آرام چل اٹھ"وہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بولا تو اسے ناچار اٹھنا ہی پڑا۔پھر وہ روز اسے ایسے ہی ایکسرسائز کراتا اور آج اسکا سیکنڈ آپریشن تھا جو کامیاب رہا۔
دو سال بعد۔۔۔
یہ منظر وارلڈ ٹار پر کھلے جانے والی میچ کاتھا پورا ایڈوٹوریم لوگوں سے کھچا کھچ بھرا پڑا تھا دوسرے دوسرے ممالک سے لوگ میچ دیکھنے آئے ہؤے تھے اور چاروں طرف ایک ہی نام کی گونچ مچی ہوئی تھی ۔
جہاں جہاں جہاں"سبھی لوگ جہاں کے نام کے نارے لگا رہے تھے
اور کچھ ہی دیر میں جہاں کے نام کی گنج بڑھ گئی اور گیم اپنے آخری مرحلے پر پہنچ گیا اور وینر جہاں کی ٹیم ہوئی۔گیم کے ختم ہونے پر ہی جہاں کے ٹیم میمبر نے اسے کندھوں پر اٹھا لیا اور پورا ایڈوٹوریم جہاں کے نام سے گنج اٹھا۔
دیکھا میں نے کہا تھا نہ زندگی میں کچھ بھی پوسیبل نہیں ہوتا انہیں پوسیبل بنانا ہوتا ہے"وہ باہر نکلا ہی تھا کہ اسکے ساتھ چلتے خالد نے کہا۔
ہاں اور یہ جو پوسیبل ہوا ہے وہ بھی تیرے ہی وجہ سے اگر تو نہ ہوتا تو شاید میں آج یہاں پر نہ ہوتا"جہاں نے اپنے پیروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
یہ میری وجہ سے نہیں تمہارے اندر کے جوش کی وجہ سے تمہاری ویل پاور کی وجہ سے تم یہاں موجود ہو"خالد نے اسکے سینے پر ہاتھ سے تھوکتے ہوئے کہا۔
تم صرف ایسے ہی کہہ رہے لیکن میری کامیابی کی وجہ تم ہو اور میں یہ احسان کبھی نہیں بھول سکوں گا"جہاں نے اسے گلے سے لگاتے کہا۔
دوست میں کیسا احسان یہ تو میرا فرض تھا یار"خالد اس سے الگ ہوتے مسکرا کر بولا پھر وہ دونوں باہر کی طرف بڑھ گئے اب ایک نئی زندگی انکے انتظار میں تھی۔
کون کہتا ہے کہ زندگی میں صرف پیار ہی سب کچھ ہوتا ہے کبھی کبھی پیار کمزور پڑھ جاتا ہے دوسری کے آگے دوستی ہر رشتوں میں سب سے مظبوط رشتے ہے جو ہماری پوری زندگی ہوتی ہے اور ایک سچا دوست ہماری زندگی بدل دیتا ہے جیسے جہاں کی بدل گئی خالد کی وجہ سے جس نے ہر موڑ پر اس کا ساتھ دیا اس کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ اللّٰہ پاک نے اگر والدین کے بعد کوئی اور حساس تختہ بنایا ہے تو وہ دوستی کا رشتہ۔جس میں ہر حساس ہے محبت وہ یا غصہ ہو ناراضگی ہو یا جو بھی حساس سب اس میں پائے جاتے ہیں۔
میں اگر زندگی لکھوں
تو دوست کو لکھو
اگر خوشی لکھو
تو دوست کو لکھو
اگر درد کا ساتھی لکھو
تو دوست کو لکھوں ۔
ساری کائنات لکھوں
تو دوست کو لکھوں۔۔۔
غرض کی جو بھی الفاظ لکھوں
سب دوست کو لکھوں۔
از قلم:تسمیہ آفرین
आँचल सोनी 'हिया'
03-Oct-2022 11:37 PM
Nice
Reply
Asha Manhas
03-Oct-2022 01:45 PM
ماشاءاللہ❤️🤐🤐🤐🤐
Reply
Raziya bano
03-Oct-2022 09:57 AM
نائس
Reply